احباب کے قریب محبت سے بیٹھیے
عزت جو مل گئی ہے تو عزت سے بیٹھیے
ان کی گلی میں جانا ضروری نہیں مگر
جانا جو ہو گیا تو شرافت سے بیٹھیے
انجام عشق ٹھیک ہی ہوگا جناب شیخ
فرصت سے آ گئے ہو تو فرصت سے بیٹھیے
ساحل سے ہر خوشی کا نظارہ فضول ہے
طوفان غم میں رہ کے بھی ہمت سے بیٹھیے
نفرت کی بات کرنا گناہ عظیم ہے
محبوب کے قریب تو چاہت سے بیٹھیے
رہ رہ کے گر رہی ہیں نگاہوں کی بجلیاں
آ کر ہمارے پاس محبت سے بیٹھیے
میکشؔ کو پینے دیجئے زلفوں کی چھاؤں میں
کچھ دیر اس کے پاس محبت سے بیٹھیے
غزل
احباب کے قریب محبت سے بیٹھیے
میکش ناگپوری