EN हिंदी
احباب ہو گئے ہیں بہت مجھ سے بد گمان | شیح شیری
ahbab ho gae hain bahut mujhse bad-guman

غزل

احباب ہو گئے ہیں بہت مجھ سے بد گمان

تنویر سامانی

;

احباب ہو گئے ہیں بہت مجھ سے بد گمان
قینچی کی طرح چلنے لگی ہے مری زبان

اک بات میری ان کی توجہ نہ پا سکی
کہتے تھے لوگ ہوتے ہیں دیوار کے بھی کان

کھڑکی کو کھول کر تو کسی روز جھانک لو
خالی ہے آج کل مرے احساس کا مکان

تنہا اداس کمرے میں بیٹھا ہوا تھا میں
اک لفظ نے بکھیر دئے مشک و زعفران

پانی کا رخ بدلنے کو مارے ہاتھ پاؤں
اک آدمی جو خود کو بتاتا رہا چٹان

خود کو سنبھال پائے گا میں کس طرح کہوں
سوکھا درخت تیز ہواؤں کے درمیان

اک دن میں اپنے گھر کے کھلی چھت پہ چڑھ گیا
مجھ کو زمین پر نظر آیا اک آسمان