احباب ہو گئے ہیں بہت مجھ سے بد گمان
قینچی کی طرح چلنے لگی ہے مری زبان
اک بات میری ان کی توجہ نہ پا سکی
کہتے تھے لوگ ہوتے ہیں دیوار کے بھی کان
کھڑکی کو کھول کر تو کسی روز جھانک لو
خالی ہے آج کل مرے احساس کا مکان
تنہا اداس کمرے میں بیٹھا ہوا تھا میں
اک لفظ نے بکھیر دئے مشک و زعفران
پانی کا رخ بدلنے کو مارے ہاتھ پاؤں
اک آدمی جو خود کو بتاتا رہا چٹان
خود کو سنبھال پائے گا میں کس طرح کہوں
سوکھا درخت تیز ہواؤں کے درمیان
اک دن میں اپنے گھر کے کھلی چھت پہ چڑھ گیا
مجھ کو زمین پر نظر آیا اک آسمان
غزل
احباب ہو گئے ہیں بہت مجھ سے بد گمان
تنویر سامانی