احباب بھی ہیں خوب کہ تشہیر کر گئے
میرا سکوت عشق سے تعبیر کر گئے
جادو اثر تھے ہونٹ کہ ساغر کو چوم کر
کچھ اور ہی شراب کی تاثیر کر گئے
ہر عضو جیسے جسم کا تھا بولتا ہوا
لہرائے اس کے ہاتھ کہ تقریر کر گئے
از بام تا بہ مے کدہ گیسو دھواں دھواں
عالم تمام حلقۂ زنجیر کر گئے
تحریر خط جام سے سب وا ہوئے رموز
ہم عقدۂ میان کی تدبیر کر گئے
ہاں کاتبان نامۂ اعمال کو تھی کد
کچھ اور میری فرد میں تحریر کر گئے
صہباؔ وہ ایک لفظ تھا دیوار کا لکھا
ہم جو مٹے تو عشق کی توقیر کر گئے
غزل
احباب بھی ہیں خوب کہ تشہیر کر گئے
صہبا وحید