اہم آنکھیں ہیں یا منظر کھلے تو
ابھی ہیں بند کتنے در کھلے تو
تو پھر کیا حال ہو بس کچھ نہ پوچھو
جو بھیتر ہے وہی باہر کھلے تو
خیال و لفظ ہیں دست و گریباں
ہے کم تر کون ہے برتر کھلے تو
سب اپنی کرنی میرے متھے منڈھ دی
مصر تھا خیر خود کہ شر کھلے تو
دکھائی دے گا کچھ کا کچھ سبھی کچھ
مگر منظر کا پس منظر کھلے تو
کڑی ہم ہیں اسی اک سلسلے کی
سمندر امڈے گر گاگر کھلے تو
ندارد وسعتیں سب رفعتیں پھر
پروں میں آسماں ہیں پر کھلے تو
مزے کی نیند اک لمبی سی جھپکی
بدن تیرا مرا بستر کھلے تو
غزل
اہم آنکھیں ہیں یا منظر کھلے تو
شمیم عباس