اگلی گلی میں رہتا ہے اور ملنے تک نہیں آتا ہے
کہتا ہے تکلف کیا کرنا ہم تم میں تو پیار کا ناتا ہے
کہتا ہے زیادہ ملنے سے وعدوں کی خلش بڑھ جائے گی
کچھ وعدے وقت پہ بھی چھوڑو دیکھو وہ کیا دکھلاتا ہے
کہتا ہے تمہارا دوش نہ تھا کچھ ہم کو بھی اپنا ہوش نہ تھا
پھر ہنستا ہے پھر روتا ہے پھر چپ ہو کر رہ جاتا ہے
خود اس سے کہا گھر آنے کو اور اس کے بنا مر جانے کو
اور اب جو وہ کچھ آوارہ ہوا جی رہ رہ کر گھبراتا ہے
اے بچو اے ہنسنے والو تاریخ محبت پڑھ ڈالو
دل والے کے دل پر قید نہیں ہر عمر میں ٹھوکر کھاتا ہے
غزل
اگلی گلی میں رہتا ہے اور ملنے تک نہیں آتا ہے
جمیل الدین عالی