اگرچہ موت کو ہم نے گلے لگایا نہیں
مگر حیات کا احسان بھی اٹھایا نہیں
نظر کے سامنے اک پل بھی جو نہیں ٹھہرا
وہ کون شخص ہے دل نے اسے بھلایا نہیں
میں اپنے آپ کو کن راستوں میں بھول آیا
کہ زندگی نے بھی میرا سراغ پایا نہیں
میں جس کے واسطے ملبوس حرف بنتا ہوں
وہ اک خیال ابھی ذہن میں بھی آیا نہیں
ہزار خواہش دنیا ہزار خوف زیاں
مری انا کا قدم پھر بھی ڈگمگایا نہیں
حیات جبر کا صحرائے بے کراں جس میں
محبتوں کے شجر کا کہیں بھی سایا نہیں
زمانہ گزرا منورؔ ادھر سے گزرا تھا
ہوا نے نقش قدم آج تک مٹایا نہیں
غزل
اگرچہ موت کو ہم نے گلے لگایا نہیں
منور ہاشمی