اگرچہ میں نے لکھیں اس کو عرضیاں بھی بہت
اڑائیں اس نے مگر ان کی دھجیاں بھی بہت
ملے گا فائدہ کچھ زیست کے سفر میں مجھے
اگرچہ اس میں ہے اندیشۂ زیاں بھی بہت
مرے قریب جب آؤ گے جان جاؤ گے
برائیاں ہیں اگر مجھ میں خوبیاں بھی بہت
بڑے دکھوں میں گزاری ہے زندگی پھر بھی
جہاں میں چھوڑی ہیں ہم نے کہانیاں بھی بہت
دکھائی دیتے ہیں کچھ پھول اب بھی شاخوں پر
بکھیر دی ہیں ہواؤں نے پتیاں بھی بہت
یہ اور بات ہے محفوظ بجلیوں سے نہ تھے
مری نگاہ میں تھے یوں تو آشیاں بھی بہت
ہماری دوستی اے دوست شک کی زد میں ہے
ہیں قربتیں بھی بہت ہم میں دوریاں بھی بہت
مسرتوں کی طلب میں جو گھر سے نکلا تھا
اسی کے حصے میں آئیں اداسیاں بھی بہت
ابھی تو حبس ہے مشکل ہے سانس لینا بھی
ہوا چلی تو پھر آئیں گی آندھیاں بھی بہت
غضب کا حسن سہی تیری سادگی میں مگر
پسند ہیں مجھے اے دوست شوخیاں بھی بہت
مرا خیال ہے پا لوں گا میں رشیدؔ اسے
مرے خیال میں لیکن ہیں خامیاں بھی بہت

غزل
اگرچہ میں نے لکھیں اس کو عرضیاں بھی بہت
رشید عثمانی