اگرچہ عشق میں اک بے خودی سی رہتی ہے
مگر وہ نیند بھی جاگی ہوئی سی رہتی ہے
وہی تو وجہ تعارف ہے کوئی کیا جانے
ادا ادا میں جو اک بے رخی سی رہتی ہے
بڑی عجیب ہے شب ہائے غم کی ظلمت بھی
دیے جلاؤ مگر تیرگی سی رہتی ہے
ہزار درد فرائض ہیں اور دل تنہا
مرے خلوص کو شرمندگی سی رہتی ہے
شمیمؔ خون جگر سے ابھارئے لیکن
ہر ایک نقش میں کوئی کمی سی رہتی ہے

غزل
اگرچہ عشق میں اک بے خودی سی رہتی ہے
شمیم کرہانی