اگرچہ حادثے گزرے ہیں پانیوں کی طرح
خموش رہ گئے ہم لوگ ساحلوں کی طرح
کسی کے سامنے میں کس لیے زباں کھولوں
ملی ہے اپنی انا مجھ کو دشمنوں کی طرح
ترے بغیر نظر آئے ہیں مجھے اکثر
مکان کے در و دیوار قاتلوں کی طرح
نہ جانے کون سی منزل کو چل دیے پتے
بھٹک رہی ہیں ہوائیں مسافروں کی طرح
ہمیں نے کھول کے لب روح پھونک دی ورنہ
تمام حرف تھے بے جان پتھروں کی طرح
میں رو رہا تھا شب غم کی ظلمتوں سے بہت
خدا کا شکر جلے زخم مشعلوں کی طرح
یہی تو کیفؔ حسد ہے کہ دل بھی یاروں کے
سیاہ ہو گئے لکھے ہوئے خطوں کی طرح
غزل
اگرچہ حادثے گزرے ہیں پانیوں کی طرح
کیف انصاری