اگرچہ آنکھ بہت شوخیوں کی زد میں رہی
مری نگاہ ہمیشہ ادب کی حد میں رہی
سمجھ سکا نہ کوئی زندگی کی ارزش کو
یہ جنس خاص ترازوئے نیک و بد میں رہی
بہت بلند ہوا تمکنت سے تاج شہی
کلاہ فقر مگر نازش نمد میں رہی
ہمیشہ درد سے عاری رہا یہ زاہد خشک
یہ نعش زندہ سدا گوشۂ لحد میں رہی
دلوں میں بیٹھ گیا برہمن کا حسن بیاں
حدیث شیخ طلسمات رد و کد میں رہی
غزل
اگرچہ آنکھ بہت شوخیوں کی زد میں رہی
صوفی تبسم