اگر یہ رنگینیٔ جہاں کا وجود ہے عکس آسماں سے
تو پھر رخ شمع و آئنہ پر کھلا ہے یہ رنگ خوں کہاں سے
رکے رہیں گے فصیل ظلمت کے دائرے پر سبھی مسافر
مگر کسی خواب کے جلو میں چراغ نکلے گا کارواں سے
رکی ہوئی ہے جو ایک موج سراب کی سطح پر یہ دنیا
تو میں بھی اس خواب کے نگر کا ثبوت لاؤں گا داستاں سے
یہ آئنہ جمع کر رہا ہے نئے جہازوں کے عکس لیکن
یہ آب جو قطع کر رہی ہے کسی ستارے کو درمیاں سے
یہ سچ ہے مل بیٹھنے کی حد تک تو کام آئی ہے خوش گمانی
مگر دلوں میں یہ دوستی کی نمود ہے راحت بیاں سے
مسافر خواب کے لیے ہیں یہ میری آنکھوں کے پھول ساجدؔ
اور اک ستارے کے دیکھنے کو یہ آگ اتری ہے شمع داں سے
غزل
اگر یہ رنگینیٔ جہاں کا وجود ہے عکس آسماں سے
غلام حسین ساجد