اگر ان کے لب پر گلا ہے کسی کا
تو بے جا بھی شکوہ بجا ہے کسی کا
حسیں حشر میں سر جھکائے ہوئے ہیں
وفا آج وعدہ ہوا ہے کسی کا
وہ جوبن بہت سر اٹھائے ہوئے ہیں
بہت تنگ بند قبا ہے کسی کا
وہ خود چاہتے ہیں کوئی اب ستائے
ستانا مزا دے گیا ہے کسی کا
جو ہیں دست گستاخ اپنے سلامت
تو جھوٹا ہی وعدہ وفا ہے کسی کا
وہ کیوں اٹھ کے خلوت سے محفل میں آئیں
وہ کیا جانیں کیا مدعا ہے کسی کا
بنا لوں خدا تو بھی میرے نہ ہوں گے
بتوں میں کوئی بھی ہوا ہے کسی کا
کوئی گود میں جھم سے آ ہی گیا ہے
تصور ہمیں جب بندھا ہے کسی کا
ریاضؔ اور ہی رنگ میں مست ہیں اب
سنا ہے پیالا پیا ہے کسی کا
غزل
اگر ان کے لب پر گلا ہے کسی کا
ریاضؔ خیرآبادی