EN हिंदी
اگر تقدیر تیری باعث آزار ہو جائے | شیح شیری
agar taqdir teri bais-e-azar ho jae

غزل

اگر تقدیر تیری باعث آزار ہو جائے

عرش ملسیانی

;

اگر تقدیر تیری باعث آزار ہو جائے
تجھے لازم ہے اس سے بر سر پیکار ہو جائے

مری کشتی ہے میں ہوں اور گرداب محبت ہے
جو تو ہو نا خدا میرا تو بیڑا پار ہو جائے

کمال ضبط غم سے یہ گوارا ہی نہیں مجھ کو
کہ حرف آرزو شرمندۂ اظہار ہو جائے

تیرے خواب گراں پر اے دل ناداں تعجب ہے
کہ تو سوتا رہے سارا جہاں بے دار ہو جائے

انہیں کیوں کوستا ہے جو تجھے کہتے ہیں کم ہمت
برا کیا ہے حقیقت کا اگر اظہار ہو جائے

تمہیں اے عرش کیوں ہے تیر غم سے اتنی بے زاری
یہی بہتر ہے یہ ناوک جگر کے پار ہو جائے