اگر سوال وہ کرتا جواب کیا لیتا
یہ غم اسی نے دیا تھا حساب کیا لیتا
بہت ہجوم تھا تعبیر کی دکانوں پر
ہمیں تھے ورنہ کوئی جنس خواب کیا لیتا
ہمارے عہد میں ارزانئ نقاب نہ پوچھ
میں کور چشموں کی خاطر نقاب کیا لیتا
فرات آج رواں ہے یزید پیاسا ہے
یہ پیاس کوئی بجھا کر ثواب کیا لیتا
ارے جسے ورق چہرہ چہرہ یاد ہو شاذؔ
بھلا وہ آدمی درس کتاب کیا لیتا
غزل
اگر سوال وہ کرتا جواب کیا لیتا
شاذ تمکنت