اگر محبت کے مدعی ہو تو یہ رویہ روا نہیں ہے
جو شکوہ ہے روبرو نہیں ہے جو بات ہے برملا نہیں ہے
یہ روز تجدید عہد الفت یہ روز پیمان دل نوازی
ہزار تسلیم کر رہا ہوں مگر یقین وفا نہیں ہے
ہے تیرے کافر شباب سے خوب میری معصوم مے گساری
سرور کی ایک حد ہے قائم غرور کی انتہا نہیں ہے
عجب نہیں زحمت وفا سے مجھے کسی دن نجات دے دے
یہی مری بے زباں محبت جو در خور اعتنا نہیں ہے
نہ جانے کس کس سے دل لگا کر وفا سے مایوس ہو چکا ہوں
نظر پریشان شش جہت ہے کوئی بھی درد آشنا نہیں ہے
جتا کے مجبوریٔ محبت امید مہر و وفا کے معنی
میں خود ہوں اپنا سکون دشمن کسی کی کوئی خطا نہیں ہے
بجا بجا بے شمار عارض نظر نظر کو ترس رہے ہیں
مگر یہ دل کا معاملہ ہے نگاہ کا واسطہ نہیں ہے
غزل
اگر محبت کے مدعی ہو تو یہ رویہ روا نہیں ہے
احسان دانش