EN हिंदी
اگر موج ہے بیچ دھارے چلا چل | شیح شیری
agar mauj hai bich dhaare chala chal

غزل

اگر موج ہے بیچ دھارے چلا چل

حفیظ جالندھری

;

اگر موج ہے بیچ دھارے چلا چل
وگرنہ کنارے کنارے چلا چل

اسی چال سے میرے پیارے چلا چل
گزرتی ہے جیسے گزارے چلا چل

تجھے ساتھ دینا ہے بہروپیوں کا
نئے سے نیا روپ دھارے چلا چل

خدا کو نہ تکلیف دے ڈوبنے میں
کسی ناخدا کے سہارے چلا چل

پہنچ جائیں گے قبر میں پاؤں تیرے
پسارے چلا چل پسارے چلا چل

یہ اوپر کا طبقہ خلا ہی خلا ہے
ہوا و ہوس کے غبارے چلا چل

ڈبویا ہے تو نے حیا کا سفینہ
مرے دوست سینہ ابھارے چلا چل

مسلسل بتوں کی تمنا کیے جا
مسلسل خدا کو پکارے چلا چل

یہاں تو بہر حال جھکنا پڑے گا
نہیں تو کسی اور دوارے چلا چل

تجھے تو ابھی دیر تک کھیلنا ہے
اسی میں تو ہے جیت ہارے چلا چل

نہ دے فرصت دم زدن او زمانے
نئے سے نیا تیر مارے چلا چل

شب تار ہے تابہ صبح قیامت
مقدر ہے گردش ستارے چلا چل

کہاں سے چلا تھا کہاں تک چلے گا
چلا چل مسافت کے مارے چلا چل

بصیرت نہیں ہے تو سیرت بھی کیوں ہو
فقط شکل و صورت سنوارے چلا چل

حفیظؔ اس نئے دور میں تجھ کو فن کا
نشہ ہے تو پیارے اتارے چلا چل