اگر مسجد سے واعظ آ رہے ہیں
قدم کیوں ڈگمگائے جا رہے ہیں
کسی کی بے وفائی کا گلہ تھا
نہ جانے آپ کیوں شرما رہے ہیں
یہ دیوانہ کسی کی کیا سنے گا
یہ دیوانے کسے سمجھا رہے ہیں
منانے کے لیے جشن بہاراں
نشیمن بھی جلائے جا رہے ہیں
امیرؔ ان کو ہے فکر چشم نم بھی
وہ دامن بھی بچائے جا رہے ہیں
غزل
اگر مسجد سے واعظ آ رہے ہیں
امیر قزلباش