اگر مرتے ہوئے لب پر نہ تیرا نام آئے گا
تو میں مرنے سے در گزرا مرے کس کام آئے گا
اسے بھی ٹھان رکھ ساقی یقیں ہوگا نہ رندوں کو
اگر زاہد پہن کر جامۂ احرام آئے گا
شب فرقت میں درد دل سے میں اس واسطے خوش ہوں
زباں پر رات بھر رہ رہ کے تیرا نام آئے گا
لگی ہو کچھ تو قاصد آخر اس کم بخت دل میں بھی
وہاں تیری طرح جو جائے گا ناکام آئے گا
اسی امید میں باندھے ہوئے ہیں ٹکٹکی میکش
کف نازک پہ ساقی رکھ کے اک دن جام آئے گا
یہاں اپنی پڑی ہے تجھ سے اے غم خوار کیا الجھوں
یہ کون آرام ہے مر جاؤں تب آرام آئے گا
زہے عزت جو ہو اس بزم میں مذکور اے واعظ
بلا سے گر گنہ گاروں میں اپنا نام آئے گا
ہزار انکار یا قطع تعلق اس سے کر ناصح
مگر ہر پھر کے ہونٹوں پر اسی کا نام آئے گا
عطا کی جب کہ خود پیر مغاں نے پی بھی لے زاہد
یہ کیسا سوچنا ہے تجھ پہ کیوں الزام آئے گا
پڑا ہے سلسلہ تقدیر کا صیاد کے بس میں
چمن میں اے صبا کیونکر اسیر دام آئے گا
کوئی بدمست کو دیتا ہے ساقی بھر کے پیمانہ
ترا کیا جائے گا مجھ پر عبث الزام آئے گا
انہیں دیکھے گی تو اے چشم حسرت وصل میں یا میں
ترے کام آئے گا رونا کہ میرے کام آئے گا
ہمیشہ کیا پیوں گا میں اسی کہنہ سفالی میں
مرے آگے کبھی تو ساغر زرفام آئے گا
کہاں سے لاؤں صبر حضرت ایوب اے ساقی
خم آئے گا صراحی آئے گی تب جام آئے گا
چھری تھی کند تیری یا ترے قاتل کی او بسمل
تڑپ بھی تو تری گردن پہ کیوں الزام آئے گا
یہی کہہ کر اجل کو قرض خواہوں کی طرح ٹالا
کہ لے کر آج قاصد یار کا پیغام آئے گا
ہمیشہ کیا یوں ہی قسمت میں ہے گنتی گنا دینا
کوئی نالہ نہ لب پر لائق انجام آئے گا
گلی میں یار کی اے شادؔ سب مشتاق بیٹھے ہیں
خدا جانے وہاں سے حکم کس کے نام آئے گا
غزل
اگر مرتے ہوئے لب پر نہ تیرا نام آئے گا
شاد عظیم آبادی