اگر میں معجزے کو خاکساری کے عیاں کرتا
بگولے سا بنا اور ہی زمیں و آسماں کرتا
مجھے حق گلشن ایجاد کا گر باغباں کرتا
تو اشک بلبلوں کو آبیار گلستاں کرتا
گلہ دل سختیٔ احباب کا گر میں بیاں کرتا
صدف سا پل میں آنسو عقدۂ دل کے رواں کرتا
جو دیوان قضا کی پیشکاری حق مجھے دیتا
تو ریشے سرو کے مژگان چشم قمریاں کرتا
خدا گر خانہ سامان قضا کرتا یہ عزلتؔ کو
تو پروانوں کی راکھ اے شمع صبح آسماں کرتا
غزل
اگر میں معجزے کو خاکساری کے عیاں کرتا
ولی عزلت