EN हिंदी
اگر کچھ اعتبار جسم و جاں ہو | شیح شیری
agar kuchh etibar-e-jism-o-jaan ho

غزل

اگر کچھ اعتبار جسم و جاں ہو

آغاز برنی

;

اگر کچھ اعتبار جسم و جاں ہو
ابھی کچھ اور میرا امتحاں ہو

مجھے درپیش ہے بس ایک منزل
کہ تجھ سے بات ہو لیکن کہاں ہو

جسے موج بلا چومے مسلسل
مری کشتی کا ایسا بادباں ہو

کہاں تک صورت امکاں نکالوں
اگر ہر بار محنت رائیگاں ہو

مرے خوابوں کی وہ بے نام جنت
زمین و آسماں کے درمیاں ہو

مرے احساس کے آتش فشاں کا
اگر ہو تو مرے دل تک دھواں ہو

اگر آغازؔ ہے چپ چاپ ساحل
سمندر کی طرح تم بے کراں ہو