اگر کبھی ترے آزار سے نکلتا ہوں
تو اپنے دائرۂ کار سے نکلتا ہوں
ہوائے تازہ ہوں رکنا نہیں کہیں بھی مجھے
گھروں میں گھستا ہوں اشجار سے نکلتا ہوں
کبھی ہے اس کے مضافات میں نمود مری
کبھی میں اپنے ہی آثار سے نکلتا ہوں
میں گھر میں جب نہیں ہوتا تو گھاس کی صورت
دریچہ و در و دیوار سے نکلتا ہوں
اسی کنارۂ دریائے ذات پر ہر دم
غروب ہوتا ہوں اس پار سے نکلتا ہوں
وداع کرتی ہے روزانہ زندگی مجھ کو
میں روز موت کے منجدھار سے نکلتا ہوں
رکا ہوا کوئی سیلاب ہوں طبیعت کا
ہمیشہ تندئ رفتار سے نکلتا ہوں
اسے بھی کچھ مری ہمت ہی جانیے جو کبھی
خیال و خواب کے انبار سے نکلتا ہوں
لباس بیچتا ہوں جا کے پہلے اپنا ظفرؔ
تو کچھ خرید کے بازار سے نکلتا ہوں
غزل
اگر کبھی ترے آزار سے نکلتا ہوں
ظفر اقبال