EN हिंदी
اگر اس شہر کی آب و ہوا تبدیل ہو جائے | شیح شیری
agar is shahr ki aab o hawa tabdil ho jae

غزل

اگر اس شہر کی آب و ہوا تبدیل ہو جائے

عبید صدیقی

;

اگر اس شہر کی آب و ہوا تبدیل ہو جائے
تو پھر سب کچھ بجز نام خدا تبدیل ہو جائے

مرے ہونے نے دنیا میں سبھی کچھ تو بدل ڈالا
مجھے تو ہی بتا اب اور کیا تبدیل ہو جائے

مجھے اس کی خبر تک بھی نہ ہونے پائے اور اک دن
سفر کے درمیاں یوں راستہ تبدیل ہو جائے

عجب خواہش ہے سر سے آسماں کا سایہ اٹھ جائے
زمیں آب رواں میں زیر پا تبدیل ہو جائے

طلسم خواب سے آنکھیں اگر آزاد ہو جائیں
تو زندہ رہنے کا سارا مزہ تبدیل ہو جائے