اگر اس شہر کی آب و ہوا تبدیل ہو جائے
تو پھر سب کچھ بجز نام خدا تبدیل ہو جائے
مرے ہونے نے دنیا میں سبھی کچھ تو بدل ڈالا
مجھے تو ہی بتا اب اور کیا تبدیل ہو جائے
مجھے اس کی خبر تک بھی نہ ہونے پائے اور اک دن
سفر کے درمیاں یوں راستہ تبدیل ہو جائے
عجب خواہش ہے سر سے آسماں کا سایہ اٹھ جائے
زمیں آب رواں میں زیر پا تبدیل ہو جائے
طلسم خواب سے آنکھیں اگر آزاد ہو جائیں
تو زندہ رہنے کا سارا مزہ تبدیل ہو جائے
غزل
اگر اس شہر کی آب و ہوا تبدیل ہو جائے
عبید صدیقی