اگر ہر چیز میں اس نے اثر رکھا ہوا ہے
تو پھر اب تک مجھے کیوں بے ہنر رکھا ہوا ہے
تعلق زندگی سے مختصر رکھا ہوا ہے
کہ شانوں پر نہیں نیزے پہ سر رکھا ہوا ہے
زمانے سے ابھی تک پوچھتے ہیں اس کی باتیں
اسے ہم نے ابھی تک بے خبر رکھا ہوا ہے
اب ایسی بے ثمر ساعت میں اس کی یاد کیسی
یہ دکھ اچھے دنوں کی آس پر رکھا ہوا ہے
نکلنا چاہتا ہے وسعت صحرا میں وحشی
بڑے جتنوں سے دل کو باندھ کر رکھا ہوا ہے
صدا دیتا ہے روز و شب کوئی ایسا جزیرہ
جہاں میرے بھی حصے کا ثمر رکھا ہوا ہے
نہ جانے کون سی منزل پہ بجھ جائیں مری آنکھیں
سو میں نے اک اک ہم سفر رکھا ہوا ہے
غزل
اگر ہر چیز میں اس نے اثر رکھا ہوا ہے
اکرم محمود