اگر ہے ریت کی دیوار دھیان ٹوٹے گا
یہ حوصلہ نہ پس امتحان ٹوٹے گا
جہاں جہاں بھی مرا نام ہے فسانے میں
وہاں وہاں ترا زور بیان ٹوٹے گا
تصورات کے گھر میں خموش بیٹھا ہوں
تم آؤ گے تو خیالی مکان ٹوٹے گا
کثیف دھوپ سے جل جائے گا حسین بدن
مری امید کا جب سائبان ٹوٹے گا
عجیب کرب میں ڈوبی ہوئی سدا ہوگی
غرور جب ترا بن کر چٹان ٹوٹے گا
نہ راس آئے گی جب ہم کو موج سیل رواں
ہماری کشتی پہ جب بادبان ٹوٹے گا
مجھے یقیں ترے جلوے فریب دے دیں گے
مری نگاہ کا جب بھی گمان ٹوٹے گا
یہ ظلم و جور کے ایوان پھر کہاں ہوں گے
یہ بے ستون اگر آسمان ٹوٹے گا
سواد منزل ادراک پائے گا راہیؔ
نشان بن کے اگر بے نشان ٹوٹے گا

غزل
اگر ہے ریت کی دیوار دھیان ٹوٹے گا
امتیاز احمد راہی