اگر گل میں پیارے تری بو نہ ہووے
وہ منظور بلبل کسی رو نہ ہووے
ترے بن تو فردوس مجھ کو جہنم
قیامت ہو مجھ پر اگر تو نہ ہووے
ہو اس بزم میں شمع کب رونق افزا
جہاں محفل افروز مہ رو نہ ہووے
یہ آئینہ لے جا کے پتھر سے پھوڑوں
پری کا اگر درمیاں رو نہ ہووے
مہکتی ہے زلف سیہ اس کی ہر رات
کہیں اس میں عشقؔ عطر شبو نہ ہووے
غزل
اگر گل میں پیارے تری بو نہ ہووے
عشق اورنگ آبادی