اگر غم تیرا غم ہے تو کوئی غم سے رہا کیوں ہو
جسے حاصل ہو تیرا قرب وہ تجھ سے جدا کیوں ہو
یہ ہستی و عدم کیوں ہو فنا کیوں ہو بقا کیوں ہو
تمہیں تم ہو تو پھر دل میں خیال ماسوا کیوں ہو
وفا میں ہے وفائی ہے وفائی میں وفا کیسی
وفا ہو تو جفا کیوں ہو جفا ہو تو وفا کیوں ہو
نتیجہ کچھ نہیں ہے شمع کے آنسو بہانے سے
یہ صرف بے محل عاشق کا آخر خوں بہا کیوں ہو
تمہاری بے وفائی کیا سند ہے ساری دنیا کو
ہوئے تم بے وفا تو عمر میری بے وفا کیوں ہو
خدا ناکردہ میں اور کامیابی غیر ممکن ہے
جو بر آئے کسی صورت وہ میرا مدعا کیوں ہو
اثر سے دل کے برہم کیوں نظام دہر ہو جائے
ہم اس سے بے وفا کیوں ہوں وہ ہم سے با وفا کیوں ہو
سراسر ظلم ہے اس بات میں تم سے گلا میرا
ردا رکھو جسے تم پھر وہ ظلم ناروا کیوں ہو
یہیں تیار ہیں جو کچھ کہو جو حکم فرماؤ
ہمارے جرم پر پابندئ روز جزا کیوں ہو
یہی کافی ہے مرنے کے لئے یہ بھی بہانہ ہے
ضرورت کیا ہے آخر درد دل اس سے سوا کیوں ہو
زباں خاموش ہے لب بند ہیں ہمت شکستہ ہے
دعا سے ہاتھ اٹھائے ہیں تو اب کوئی دعا کیوں ہو
میں کھونا چاہتا ہوں مد و جزر بحر میں شوکتؔ
وہ ساحل آشنا کشتی کا میری نا خدا کیوں ہو
غزل
اگر غم تیرا غم ہے تو کوئی غم سے رہا کیوں ہو
شوکت تھانوی