اگر فقیر سے ملنا ہے تو سنبھل پہلے
امیر بن کے نہ جا پیرہن بدل پہلے
پڑے گی تجھ پہ سنہری کرن محبت کی
حریم ذات کے جنگل سے خود نکل پہلے
سلام کہنے کو آئے گی خود بخود منزل
محبتوں کے کٹھن راستوں پہ چل پہلے
جٹائیں کانچ کے بندے تو خوب ہیں لیکن
تو خواہشوں پہ بھی جوگی بھبھوت مل پہلے
شمار تیرا بھی ہوگا کمال والوں میں
کسی کمال کے سانچے میں تو بھی ڈھل پہلے
ترے پیام ہی سے سرخ ہو گیا ہے بدن
کہ مینہ پڑا نہیں ہے کھل اٹھے کنول پہلے
سخن وروں کی ریاضت پہ پھر گیا پانی
سنائی شوخ نگاہوں نے وہ غزل پہلے
ہلے نہ ہونٹ نہ آنکھوں نے لب کشائی کی
جبین حسن پہ کیوں پڑ گئے ہیں بل پہلے
تجھے سلام کرے اٹھ کے کس طرح حسرتؔ
تو آیا دیر سے اور آ گئی اجل پہلے
غزل
اگر فقیر سے ملنا ہے تو سنبھل پہلے
اجیت سنگھ حسرت