EN हिंदी
اگر دل واقف نیرنگیٔ طبع صنم ہوتا | شیح شیری
agar dil waqif-e-nairangi-e-tab-e-sanam hota

غزل

اگر دل واقف نیرنگیٔ طبع صنم ہوتا

اکبر الہ آبادی

;

اگر دل واقف نیرنگیٔ طبع صنم ہوتا
زمانہ کی دو رنگی کا اسے ہرگز نہ غم ہوتا

یہ پابند مصیبت دل کے ہاتھوں ہم تو رہتے ہیں
نہیں تو چین سے کٹتی نہ دل ہوتا نہ غم ہوتا

انہیں کی ہے وفائی کا یہ ہے آٹھوں پہر صدمہ
وہی ہوتے جو قابو میں تو پھر کاہے کو غم ہوتا

لب و چشم صنم گر دیکھنے پاتے کہیں شاعر
کوئی شیریں سخن ہوتا کوئی جادو رقم ہوتا

بہت اچھا ہوا آئے نہ وہ میری عیادت کو
جو وہ آتے تو غیر آتے جو غیر آتے تو غم ہوتا

اگر قبریں نظر آتیں نہ دارا و سکندر کی
مجھے بھی اشتیاق دولت و جاہ و حشم ہوتا

لئے جاتا ہے جوش شوق ہم کو راہ الفت میں
نہیں تو ضعف سے دشوار چلنا دو قدم ہوتا

نہ رہنے پائے دیواروں میں روزن شکر ہے ورنہ
تمہیں تو دل لگی ہوتی غریبوں پر ستم ہوتا