EN हिंदी
اگر دل عشق سیں غافل رہا ہے | شیح شیری
agar dil ishq sin ghafil raha hai

غزل

اگر دل عشق سیں غافل رہا ہے

آبرو شاہ مبارک

;

اگر دل عشق سیں غافل رہا ہے
تو اپنے فن میں نا قابل رہا ہے

دل و دیں سے تو گزرا اب خودی چھوڑ
گھر اس مہ کا اب اک منزل رہا ہے

جدائی کے کرے تدبیر اب کون
یہ دل تھا سو اسی سیں مل رہا ہے

نہ باندھو صید رہنے کا نہیں باز
دل اپنی حرکتوں سیں ہل رہا ہے

مثل برق دنیا سے گزر جا
ایتا کیوں اس میں بے حاصل رہا ہے

نہیں تضمین کا ذوق آبروؔ کو
کہاں اس کوں دماغ و دل رہا ہے