اگر دل عشق سیں غافل رہا ہے
تو اپنے فن میں نا قابل رہا ہے
دل و دیں سے تو گزرا اب خودی چھوڑ
گھر اس مہ کا اب اک منزل رہا ہے
جدائی کے کرے تدبیر اب کون
یہ دل تھا سو اسی سیں مل رہا ہے
نہ باندھو صید رہنے کا نہیں باز
دل اپنی حرکتوں سیں ہل رہا ہے
مثل برق دنیا سے گزر جا
ایتا کیوں اس میں بے حاصل رہا ہے
نہیں تضمین کا ذوق آبروؔ کو
کہاں اس کوں دماغ و دل رہا ہے
غزل
اگر دل عشق سیں غافل رہا ہے
آبرو شاہ مبارک