اگر چبھتی ہوئی باتوں سے ڈرنا پڑ گیا تو
محبت سے کبھی تم کو مکرنا پڑ گیا تو
تری بکھری ہوئی دنیا سمیٹے جا رہا ہوں
اگر مجھ کو کسی دن خود بکھرنا پڑ گیا تو
ذخیرہ پشت پر باندھا نہیں تم نے ہوا کا
کہیں گہرے سمندر میں اترنا پڑ گیا تو
وہ مجھ سے دور ہوتا جا رہا ہے رفتہ رفتہ
اگر اس کو کبھی محسوس کرنا پڑ گیا تو
تم اس رستے میں کیوں بارود بوئے جا رہے ہو
کسی دن اس طرف سے خود گزرنا پڑ گیا تو
بنا رکھا ہے منصوبہ کئی برسوں کا تو نے
اگر اک دن اچانک تجھ کو مرنا پڑ گیا تو
تمہاری ضد ہے عاصمؔ وہ نکھارے حسن اپنا
اگر اس کے لیے تم کو سنورنا پڑ گیا تو
غزل
اگر چبھتی ہوئی باتوں سے ڈرنا پڑ گیا تو
عاصمؔ واسطی