EN हिंदी
اگر چھوٹا بھی اس سے آئنہ خانہ تو کیا ہوگا | شیح شیری
agar chhuTa bhi us se aaina-KHana to kya hoga

غزل

اگر چھوٹا بھی اس سے آئنہ خانہ تو کیا ہوگا

قمر جلالوی

;

اگر چھوٹا بھی اس سے آئنہ خانہ تو کیا ہوگا
وہ الجھے ہی رہیں گے زلف میں شانہ تو کیا ہوگا

بھلا اہل جنوں سے ترک ویرانہ تو کیا ہوگا
خبر آئے گی ان کی ان کا اب آنا تو کیا ہوگا

سنے جاؤ جہاں تک سن سکو جب نیند آئے گی
وہیں ہم چھوڑ دیں گے ختم افسانہ تو کیا ہوگا

اندھیری رات زنداں پاؤں میں زنجیر تنہائی
اس عالم میں مر جائے گا دیوانہ تو کیا ہوگا

ابھی تو مطمئن ہو ظلم کا پردہ ہے خاموشی
اگر کچھ منہ سے بول اٹھا یہ دیوانہ تو کیا ہوگا

جناب شیخ ہم تو رند ہیں چلو سلامت ہے
جو تم نے توڑ بھی ڈالا یہ پیمانہ تو کیا ہوگا

یہی ہے گر خوشی تو رات بھر گنتے رہو تارے
قمرؔ اس چاندنی میں ان کا اب آنا تو کیا ہوگا