اگر چراغ بھی آندھی سے ڈر گئے ہوتے
تو سوچیے کہ اجالے کدھر گئے ہوتے
یہ میرے دوست مرے چارہ گر مرے احباب
نہ چھیڑتے تو مرے زخم بھر گئے ہوتے
کوئی نگاہ جو اپنی بھی منتظر ہوتی
تو ہم بھی شام ڈھلے اپنے گھر گئے ہوتے
اگر وہ میری عیادت کو آ گیا ہوتا
تو دوستوں کے بھی چہرے اتر گئے ہوتے
ہمیں تو شوق سخن نے سمیٹ رکھا ہے
وگرنہ ہم تو کبھی کے بکھر گئے ہوتے
انہیں بھی مجھ سے محبت تو ہے نفسؔ لیکن
میں پوچھتا تو یقیناً مکر گئے ہوتے
غزل
اگر چراغ بھی آندھی سے ڈر گئے ہوتے
نفس انبالوی