اگر چاہوں جھٹک کر توڑ دوں زنجیر تنہائی
میں تنکا ہوں مگر موجوں سے ہے میری شناسائی
شریک راہ تھی جب تک ہماری آبلہ پائی
نہ ماتھے پر شکن ابھری نہ پاؤں میں تھکن آئی
ہوا سے صبح نا آسودگی اچھا کیا تو نے
کتاب زندگی کے کچھ ورق تو بھی اڑا لائی
ہزاروں مرحلے تھے فصل گل سے چاک داماں تک
خزاں گزری تو کب گزری بہار آئی تو کب آئی
نسیمؔ اک دن وہ آئے گا کہ مظلوموں کے قدموں میں
پناہیں ڈھونڈھتی ہوگی ستم رانوں کی دارائی
غزل
اگر چاہوں جھٹک کر توڑ دوں زنجیر تنہائی
ملکہ نسیم