اگر بات تیری ہو پیاری لگے
جو ہو بات کرنا تو بھاری لگے
ترے ہاتھ ہی سے عطا ہو جو تیری
تو تھوڑی سی بھی مجھ کو ساری لگے
دم صبح تارے سے سورج نشاں
انہیں برگ گل کی عماری لگے
کوئی چاہے لوٹے مزے یاں کے یاں
مجھے زندگی مرگ یاری لگے
سمندر سے پیاسے کو اے شاہؔ جی
مزا ندیوں کا بھی کھاری لگے

غزل
اگر بات تیری ہو پیاری لگے
شاہ حسین نہری