EN हिंदी
اگر انار میں وہ روشنی نہیں بھرتا | شیح شیری
agar anar mein wo raushni nahin bharta

غزل

اگر انار میں وہ روشنی نہیں بھرتا

رؤف خیر

;

اگر انار میں وہ روشنی نہیں بھرتا
تو خاکسار دم آگہی نہیں بھرتا

یہ بھوک پیاس بہرحال مٹ ہی جاتی ہے
مگر ہے چیز تو ایسی کہ جی نہیں بھرتا

تو اپنے آپ میں مانا کہ ایک دریا ہے
مرا وجود بھی کوزہ سہی نہیں بھرتا

یہ لین دین کی اپنی حدیں بھی ہوتی ہیں
کہ پیٹ بھرتا ہے جھولی کوئی نہیں بھرتا

ہمارا کوئی بھی نعم البدل نہیں ہوگا
ہماری خالی جگہ کوئی بھی نہیں بھرتا

معاف کرنا یہ خاکہ کہاں ابھرتا ہے
اگر یہ دست ہنر رنگ ہی نہیں بھرتا

کہاں یہ خیرؔ کہاں ہار جیت کا خدشہ
کہ جسم و جان کی بازی سے جی نہیں بھرتا