EN हिंदी
اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا | شیح شیری
agar aashiq koi paida na hota

غزل

اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا

اشرف علی فغاں

;

اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا
تو معشوقوں کا یہ چرچا نہ ہوتا

گریباں چاک کر روتے کہاں ہم
اگر یہ دامن صحرا نہ ہوتا

سدا رہتی توقع بلبلوں کو
اگر یہ غنچۂ گل وا نہ ہوتا

جدائی میں اگر آنکھیں نہ روتیں
تو ہرگز راز دل افشا نہ ہوتا

فغاںؔ کون اب خریدار سخن تھا
اگر یہ حضرت سوداؔ نہ ہوتا