اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا
تو معشوقوں کا یہ چرچا نہ ہوتا
گریباں چاک کر روتے کہاں ہم
اگر یہ دامن صحرا نہ ہوتا
سدا رہتی توقع بلبلوں کو
اگر یہ غنچۂ گل وا نہ ہوتا
جدائی میں اگر آنکھیں نہ روتیں
تو ہرگز راز دل افشا نہ ہوتا
فغاںؔ کون اب خریدار سخن تھا
اگر یہ حضرت سوداؔ نہ ہوتا

غزل
اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا
اشرف علی فغاں