افسانہ چاہتے تھے وہ افسانہ بن گیا
میں حسن اتفاق سے دیوانہ بن گیا
وہ اک نگاہ دیکھ کے خود بھی ہیں شرمسار
نا آگہی میں یوں ہی اک افسانہ بن گیا
موج ہوا سے زلف جو لہرا گئی تری
میرا شعور لغزش مستانہ بن گیا
حسن ایک اختیار مکمل ہے آپ نے
دیوانہ کر دیا جسے دیوانہ بن گیا
ذکر اس کا گفتگو میں جو شامل ہوا عدمؔ
جو شعر کہہ دیا وہ پری خانہ بن گیا
غزل
افسانہ چاہتے تھے وہ افسانہ بن گیا
عبد الحمید عدم