EN हिंदी
عدو تو کیا یہ فلک بھی اسے ستا نہ سکا | شیح شیری
adu to kya ye falak bhi use sata na saka

غزل

عدو تو کیا یہ فلک بھی اسے ستا نہ سکا

انجم مانپوری

;

عدو تو کیا یہ فلک بھی اسے ستا نہ سکا
خوشی ہنسا نہ سکی غم جسے رلا نہ سکا

نہ پوچھ اس کی دل افسردگی کی کیفیت
جو غم نصیب خوشی میں بھی مسکرا نہ سکا

وہ پوچھ بیٹھے یکایک جو وجہ بے تابی
کھجا کے رہ گیا سر بات کچھ بنا نہ سکا

وہ دیکھ لیں نہ کہیں میری چشم پر نم کو
گیا تو ملنے کو آنکھیں مگر ملا نہ سکا

یہ دو دلی میں رہا گھر نہ گھاٹ کا انجمؔ
بتوں کو کر نہ سکا خوش خدا کو پا نہ سکا