EN हिंदी
ادھورا جسم لیے پیچھے ہٹ رہا ہوں میں | شیح شیری
adhura jism liye pichhe haT raha hun main

غزل

ادھورا جسم لیے پیچھے ہٹ رہا ہوں میں

شارق جمال

;

ادھورا جسم لیے پیچھے ہٹ رہا ہوں میں
کہ اک کنارا ہوں دریا کا کٹ رہا ہوں میں

مرے وجود کو وسعت نہیں کسی بھی طرح
ہر ایک سمت سے ہر روز گھٹ رہا ہوں میں

اثر پذیر ہوں اک زلزلے سے ہستی کے
زمیں کے جیسے ہر اک سانس پھٹ رہا ہوں میں

ہیں میرے واسطے خنجر شعاعیں سورج کی
کھلی سڑک پہ ہوں ہر لمحہ کٹ رہا ہوں میں

ہے میرے سامنے تیرا کتاب سا چہرہ
اور اس کتاب کے اوراق الٹ رہا ہوں میں

پگھل رہا ہوں کھڑی دھوپ ہے مرے سر پر
کہ اک درخت کا سایہ ہوں گھٹ رہا ہوں میں

مرا وجود شکستہ سی ایک ناؤ سہی
بھنور کی لہروں سے تنہا نمٹ رہا ہوں میں

میں اک غزل ہوں مجھے کہئے کاوش غالب
کہ شہر شہر دماغوں میں بٹ رہا ہوں میں