عدم میں کیا عجب رعنائیاں ہیں
مگر سب دہر کی پرچھائیاں ہیں
بھلی لگتی نہیں تکرار اتنی
بظاہر بے ضرر سچائیاں ہیں
وہ خود شعلے سے اب دامن بچائے
بہت رسوا مری تنہائیاں ہیں
میں اپنے وار کھا کر اور بپھروں
غضب کی معرکہ آرائیاں ہیں
ہے عالم ایک جیسا ہر خوشی کا
الم کی ان گنت پہنائیاں ہیں
جنوں کے سر ہے جو الزام شاہینؔ
ہوس کی حاشیہ آرائیاں ہیں
غزل
عدم میں کیا عجب رعنائیاں ہیں
ولی عالم شاہین