ادا زبان سے حرف نہیں زیادہ ہوا
اسی پہ قتل مرا سارا خانوادہ ہوا
طلب نے زین سجائی کرن کے گھوڑے پر
کبھی جو سیر مہ و مہر کا ارادہ ہوا
ہمیں نے جست بھری وقت کے سمندر میں
ہمیں سے دامن ارض و سما کشادہ ہوا
عدو نے لوٹ لی مقتل میں جب مری پوشاک
تو میرا خون مرے جسم کا لبادہ ہوا
ادب کا زینہ ملا زیست کا قرینہ ملا
کہاں کہاں نہ ترے غم سے استفادہ ہوا
فرس کو دور کیا سر سے تاج اتار دیا
تمہارے شہر میں پہنچا تو میں پیادہ ہوا
میں دم بخود ہوں مرے سر پہ سائبان فلک
بغیر چوب کے کیوں کر ہے ایستادہ ہوا
غزل
ادا زبان سے حرف نہیں زیادہ ہوا
جواز جعفری