EN हिंदी
ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا | شیح شیری
ada se dekh lo jata rahe gila dil ka

غزل

ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا

ارشد علی خان قلق

;

ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا
بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا

ستم وہ تم نے کیے بھولے ہم گلہ دل کا
ہوا تمہارے بگڑنے سے فیصلہ دل کا

بہار آتے ہی کنج قفس نصیب ہوا
ہزار حیف کہ نکلا نہ جو صلہ دل کا

جو یہ نشانہ اڑا دو تو سمجھیں تیر فگن
بہت ہے ناوک مژگاں سے فاصلہ دل کا

الٰہی خیر ہو کچھ آج رنگ بے ڈھب ہے
ٹپک رہا ہے کئی دن سے آبلہ دل کا

چلا ہے چھوڑ کے تنہا کدھر تصور یار
شب فراق میں تھا تجھ سے مشغلہ دل کا

وہ رند ہوں کہ مجھے ہتھکڑی سے بیعت ہے
بلا ہے گیسوئے جاناں سے سلسلہ دل کا

پھرا جو کوچۂ کاکل سے کوئی پوچھیں گے
سنا ہے لٹ گیا رستہ میں قافلہ دل کا

امید صبح میں کرتا ہوں چاک دامن شب
جنوں میں روز نکالا ہے مشغلہ دل کا

وہ ظلم کرتے ہیں ہم پر تو لوگ کہتے ہیں
خدا برے سے نہ ڈالے معاملہ دل کا

ہزار فصل گل آئے جنوں وہ جوش کہاں
گیا شباب کے ہم راہ ولولہ دل کا

خدا کے ہاتھ ہے اپنا اب اے قلقؔ انصاف
بتوں سے حشر میں ہوگا مقابلہ دل کا