EN हिंदी
ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا | شیح شیری
ada se dekh lo jata rahe gila dil ka

غزل

ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا

آفتاب الدولہ لکھنوی قلق

;

ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا
بس اک نگاہ پہ ٹھیرا ہے فیصلہ دل کا

وہ ظلم کرتے ہیں مجھ پر تو لوگ کہتے ہیں
خدا برے سے نہ ڈالے معاملہ دل کا

پھرا جو کوچۂ کاکل سے کوئی پوچھیں گے
سنا ہے لٹ گیا رستے میں قافلہ دل کا

ہزار فصل گل آئے جنوں وہ جوش کہاں
گیا شباب کے ہم راہ ولولہ دل کا

بہار آتے ہی کنج قفس نصیب ہوا
ہزار حیف کہ نکلا نہ حوصلہ دل کا

الٰہی خیر ہو کچھ آج رنگ بے ڈھب ہے
تپک رہا ہے کئی دن سے آبلہ دل کا

خدا کے ہاتھ ہے اب اپنا اے قلقؔ انصاف
بتوں سے حشر میں ہوگا مقابلہ دل کا