ادا و ناز میں کچھ کچھ جو ہوش اس نے سنبھالا ہے
تو اپنے حسن کا کیا کیا دلوں میں شور ڈالا ہے
ابھی کیا عمر ہے کیا عقل ہے کیا فہم ہے لیکن
ابھی سے دل فریبی کا لہر اک نقشہ نرالا ہے
تبسم قہر ہنس دینا قیامت دیکھنا آفت
پلک دیکھو تو نشتر ہے نگہ دیکھو تو بھالا ہے
ابھی نوک نگہ میں اس قدر تیزی نہیں تس پر
کئی زخمی کیے ہیں اور کئی کو مار ڈالا ہے
اکڑنا تن کے چلنا دھج بنانا وضع دکھلانا
کبھی نیمہ کبھی چپکن کبھی خالی دوشالا ہے
کسی کے ساتھ کاندھے پر کسی کے لات سینے پر
کہیں نفرت کہیں الفت کہیں حیلہ حوالا ہے
نظیرؔ ایسا ہی دلبر شہرۂ آفاق ہوتا ہے
ابھی سے دیکھیے فتنے نے کیسا ڈھب نکالا ہے
غزل
ادا و ناز میں کچھ کچھ جو ہوش اس نے سنبھالا ہے
نظیر اکبرآبادی