ادا کے توسن پر اس صنم کو جو آج ہم نے سوار دیکھا
تو ہلتے ہی ٹک عناں کے کیا کیا کچلتے صبر و قرار دیکھا
جھپک پہ مژگاں کے جب نگہ کی تو اس نے اک پل میں ہوش اڑایا
جو چشم و غمزہ کی طرز دیکھی تو جادو اس کا شعار دیکھا
جو دیکھی اس کی وہ تیغ ابرو تو جی کو ہیبت نے آن گھیرا
نگہ جو کاکل کے دام پر کی تو دل کو اس کا شکار دیکھا
حنا جو ہاتھوں میں اس کے دیکھی تو رنگ دل کا ہوا عجب کچھ
کمر بھی دیکھی تو ایسی نازک کہ ہو بھی اس پر نثار دیکھا
وہ دیکھ لیتا ہماری جانب تو اس میں ہوتی کچھ اور خوبی
پر اس نے ہرگز ادھر نہ دیکھا نظیرؔ ہم نے ہزار دیکھا
غزل
ادا کے توسن پر اس صنم کو جو آج ہم نے سوار دیکھا
نظیر اکبرآبادی