اچھی لگیں کتابوں میں باتیں اصول کی
ان پر عمل کیا ہے یہی ہم نے بھول کی
صالح روایتوں پہ بھی آنے لگا زوال
قیمت بڑھی ہے ان دنوں کاغذ کے پھول کی
بچوں کے رخ پہ دیکھی ہے مایوسیوں کی گرد
جب خالی ہاتھ گھر میں پہنچنے کی بھول کی
اک آرزو نے ڈال دیا ہے عذاب میں
کب تک سزا ملے گی مجھے ایک بھول کی
وہ اپنے آپ مل گیا تقدیر میں جو تھا
ہم نے تمام عمر تگ و دو فضول کی
ہم نے تو انتظار میں عمریں گزار دیں
ساعت نہ آئی حسن کرم کے نزول کی
اعزاز پانے والوں میں کیوں میرا نام ہو
مہدیؔ جو یہ زکوٰۃ نہ میں نے قبول کی

غزل
اچھی لگیں کتابوں میں باتیں اصول کی
مہدی پرتاپ گڑھی