اچھی کہی دل میں نے لگایا ہے کہیں اور
یہ جب ہو کہ تم سا ہو زمانے میں کہیں اور
گردوں پہ مہ و مہر گل و شمع زمیں پر
اک جلوۂ جاناں ہے کہیں اور کہیں اور
میں عکس ہوں آئینۂ امکاں میں تمہارا
تم سا جو نہیں اور تو مجھ سا بھی نہیں اور
احباب جو کرتے ہیں کرم حال پہ میرے
کہتا ہے جنوں آئیے چل بیٹھیں کہیں اور
جاتے ہیں مٹاتے ہوئے وہ نقش قدم کو
کہہ دے کوئی ان سے کہ ہے اک خاک نشیں اور
آنکھ اس نے ملائی تڑپ اٹھا دل مضطر
تاکا تھا کہیں اور پڑا تیر کہیں اور
ہم بھولے ہوئے راہ ہیں اے کعبہ نشینو
جاتے تھے کہیں اور نکل آئے کہیں اور
دیتی ہے مزہ ناصیہ سائی ترے در پر
اک سجدہ جو کرتا ہوں تو کہتی ہے جبیں اور
کچھ روز جلیلؔ اپنی رہی گر یہی حالت
ڈھونڈیں گے فلک اور نکالیں گے زمیں اور
غزل
اچھی کہی دل میں نے لگایا ہے کہیں اور
جلیلؔ مانک پوری