اچھے لگو گے اور بھی اتنا کیا کرو
آنکھوں کو میری اپنے لیے آئنہ کرو
وعدے وفا کیے نہ کبھی تم نے جان جاں
دل پھر بھی چاہتا ہے کہ وعدہ نیا کرو
رہ کر تمہارے پاس بھی رہتا ہوں میں کہاں
مل جاؤں پھر سے تم کو بس اتنی دعا کرو
یہ دور اشتہار ہے گر کچھ نہ کر سکو
خود اپنے منہ سے تم میاں مٹھو بنا کرو
اس دشت بے حسی میں سنے گا تمہاری کون
مردے ہیں سب یہاں نہ یہاں پر صدا کرو

غزل
اچھے لگو گے اور بھی اتنا کیا کرو
طارق رشید درویش