اچھے ہیں فاصلہ کے یہ تارے سجاتے ہیں
جتنا قریب جاؤ نظر داغ آتے ہیں
وہ رائے دیتے ہیں یہاں جو ہار جاتے ہیں
جو جیت جاتے ہیں وہ کہانی سناتے ہیں
قلت بڑی ہے وقت کی کیا روبرو ملے
اب لوگ صرف فون سے رشتے نبھاتے ہیں
کس طرح لاؤں اپنے لبوں تک میں حال دل
ہے مسئلہ لبوں کا کہ یہ مسکراتے ہیں
لب پہ کبھی ٹھہرتی نہیں دیر تک ہنسی
غم میرے دل کے دشت میں خیمے لگاتے ہیں
غزل
اچھے ہیں فاصلہ کے یہ تارے سجاتے ہیں
تاثیر صدیقی