اچھا تو تم ایسے تھے
دور سے کیسے لگتے تھے
ہاتھ تمہارے شال میں بھی
کتنے ٹھنڈے رہتے تھے
سامنے سب کے اس سے ہم
کھنچے کھنچے سے رہتے تھے
آنکھ کہیں پر ہوتی تھی
بات کسی سے کرتے تھے
قربت کے ان لمحوں میں
ہم کچھ اور ہی ہوتے تھے
ساتھ میں رہ کر بھی اس سے
چلتے وقت ہی ملتے تھے
اتنے بڑے ہو کے بھی ہم
بچوں جیسا روتے تھے
جلد ہی اس کو بھول گئے
اور بھی دھوکے کھانے تھے
غزل
اچھا تو تم ایسے تھے
شارق کیفی